مقبول خبریں
فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس،سپریم کورٹ خود بھی قابل احتساب ہے: چیف جسٹس فائز عیسیٰ

اسلام آباد : سپریم کورٹ نےفیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی سماعت پہلی نومبر تک ملتوی کردی ،عدالت نے27 اکتوبر تک فریقین کے وکلا سے تحریری جوابات طلب کر لئے۔
عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ آج سب فریقین موجود نہیں تھے،فریقین کو حاضری کا ایک اور موقع دیا جاتا ہے۔
فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس میں پی ٹی آئی ،حکومت اور الیکشن کمیشن نے درخواست واپس لینے کی استدعا کی ہے۔
سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا کیس نظرثانی درخواستوں پر سماعت ہوئی،چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی،جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ بینچ میں شامل ہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا آج 9نظرثانی درخواستوں پر سماعت کررہے ہیں،پہلے سارے درخواست گزاروں کی حاضری لگالیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ شیخ رشید کے وکیل وزیر بن گئے ہیں،تو اپنا متبادل مقرر کریں،ایم کیو ایم کی جانب سے کوئی بھی وکیل عدالت میں پیش نہ ہوا۔ پہلے کچھ وضاحت کرنا چاہتا ہوں،یہ ریگولر بینچ ہے،خصوصی نہیں نظرثانی درخواستیں فوری مقرر ہوتی ہیں مگر یہ 4 سال مقرر نہ ہوئیں،فیصلہ دینے والے ایک جج ریٹائرڈ ہو چکے،اس لیے اس بینچ کے سامنے نہیں لگا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ پہلے کہا گیا تھا کہ فیصلہ غلطیوں سے بھرا پڑا ہے،اب کیا فیصلے میں وہ ساری غلطیاں ختم ہو گئی ہیں؟کیا نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی کوئی وجہ ہے؟جو اتھارٹی میں رہ چکے وہ ٹی وی اور یوٹیوب پر تقاریر کرتے ہیں،کہا جاتا ہے کہ ہمیں سنا نہیں گیا،اب ہم سننے کیلئے بیٹھے ہیں آکر بتائیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نے کہا ہم درخواستیں زیرالتوارکھ لیتےہیں،کسی نےکچھ کہناہےتوتحریری جواب دے، آپ طویل پروگرام کر لیں مگر ہر ادارے کو تباہ نہ کریں،یہاں آپ خاموش ہیں اور ٹی وی پر جاکر کہیں گےکہ ہمیں سنا نہیں گیا،پیمرا کی درخواست زیر التو رکھیں گے،کل کوئی یہ نہ کہے ہمیں سنا نہیں گیا۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے بھی نظرثانی درخواست واپس لینے کی استدعا کردی،وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہم پی ٹی آئی کی درخواست کی پیروی نہیں کرنا چاہتے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دئیے کیا آپ کو درخواست واپس لینے کا اختیار ہے؟اگر آپ فریق بننا چاہتے ہیں تو عدالت آپ کو اجازت دے گی۔
درخواست گزار اعجاز الحق کے وکیل بھی عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ہم نے تو صرف خفیہ رپورٹ پر کہا تھا کہ کچھ سیاستدانوں نے غیر ذمہ دارانہ بیان دیئے، ہم نے کسی کا نام نہیں لیا،آپ نے خود سے اخذ کر لیا کہ آپ کا ذکر ہے۔
اعجازالحق کے وکیل سے استفسار میں کہا آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ دھرنے کی حمایت نہیں کی؟کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ درست نہیں تھی۔چیف جسٹس نے وکیل کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کوئی بیان حلفی دے دیں کہ آپ کا مؤقف درست ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ سمیت کیوں نہ سب پر جرمانہ کردیا جائے؟عدالتی وقت ضائع کیا گیا اور ملک کو بھی پریشان کئے رکھا، اب آپ سب آکر کہہ رہے ہیں کہ درخواستیں واپس لینی ہیں، ہم تو بیٹھے ہوئے تھے کہ شاید ہم سے فیصلے میں کوئی غلطی ہوگئی ہو۔
چیف جسٹس نے کہا اٹارنی جنرل صاحب!آپ نےنظرثانی درخواستیں نہ لگنےکاسوال کیوں نہیں کیا؟ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے،لکھیں کہ ہمیں حکم آیا تھا کہ نظرثانی درخواست دائر کریں،پھر یہ بھی لکھیں کہ آپ کو یہ حکم کہاں سے آیا تھا؟اگر آپ کہنا چاہتے ہیں کہ مٹی پاؤ نظرانداز کرو تو وہ بھی لکھیں، 12 مئی کو کتنے لوگ مرے تھے؟ کیا ہوا؟ کیا اس پر بھی مٹی پاؤ؟
چیف جسٹس نے کہا نئی یا پرانی کہنا درست نہیں،حکومت حکومت ہی رہتی ہے پارٹی جو بھی ہو،الیکشن کمیشن بھی سابقہ یا موجودہ نہیں ہوتا یہ ادارہ ہے ۔
ہر ایک کا احتساب ہونا چاہے،ہم خود سے شروع کرسکتے ہیں۔سب سچ بولنے سے اتنا کیوں ڈر رہے ہیں؟چند کے علاوہ باقی سب درخواستیں واپس لینا چاہتے ہیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد ہی ہونا چاہیے، چیف جسٹس نےکہا بڑی دلچسپ بات ہے،جنہیں نظرثانی دائرکرنی چاہیےتھی انھوں نےنہیں کی،تحریک لبیک نے کوئی نظر ثانی دائر نہیں کی اور فیصلہ تسلیم کیا، مرحوم خادم رضوی کی اس بات پر تو تعریف بنتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ غلطیاں سب سے ہوتی ہیں، مگرغلطیاں تسلیم کرنا بڑی بات ہے، پیمرا کو کہا گیا تھا کہ نظرثانی دائر کرے یا بورڈ میٹنگ میں فیصلہ ہوا؟پاکستان میں یہی چلتا ہے کہ حکم اوپر سے آیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا عدالت ضرور آئیں مگر عدالت کو استعال نہ کریں،اللہ بھی کہتاہےمعاف کرنایانہ کرنااختیارہے،پہلےمعافی مانگیں توسہی،پہلے سچ کو تسلیم توکریں،اگر جرم ہوا ہے تو اعتراف جرم تو کریں،بتائیں ناں اس وقت الیکشن کمیشن کو فرد واحد کے حوالے کر رکھا تھا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا جب میں ذاتی حیثیت میں پیش ہوں گا تو بولوں گا۔چیف جسٹس نے کہا آپ لوگ خادم رضوی تک نہیں پہنچ سکتے، اعتراف نہیں کر سکتے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ بتائیں 2017 میں دھرنا کیسے ہوا؟معاملات کیسے چل رہے تھے؟ہم نے 12 مئی جیسے واقعات سے کچھ نہیں سیکھا، وہ صاحب کدھرہیں جنھیں جمہوریت چاہیے تھی؟کینیڈاسےکیوں نہیں آئے؟ آپ جھتے بازی کے رجحان کو آج بھی فروغ دے رہے ہیں،الیکشن کمیشن دھرنا کیس فیصلے پر عملدرآمد چاہتا ہے تو متعلقہ حصہ پڑھے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت میں فیصلے کا متعلقہ پیراگراف پڑھ دیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے اس پر عملدآمد کہاں ہوا؟ وہ بتائیں اور اسے ریکارڈ کا حصہ بنائیں۔
چیف جسٹس نے کہا 12 مئی کو پاکستانی سیاست میں نئی چیز کنٹینرز متعارف ہوئی،ایم کیو ایم آج یہاں نہیں،ایک وزیر تھے،ان کی طرف سے کوئی نہیں آیا۔
اٹارنی جنرل نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ پڑھ کرسنادیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیےکہ اس دھرنے کے بعدایسے کئی اور واقعات سامنے آئےاگر اس وقت فیصلے پر عمل ہوتا تو بعد میں سنگین واقعات نہ ہوتے۔
علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی سماعت 1 نومبر تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس نے کہا براہ راست کارروائی نشرکرنےوالےمعاملےپرکمیٹی بنائی ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا پہلی سماعت کو انڈیاپاکستان میچ سےزیادہ دیکھاگیا۔
سپریم کورٹ نے21 ستمبرکو مقدمہ سماعت کیلئےمقررکرتے ہوئےفریقین کونوٹس جاری کیا تھا۔ انٹیلیجنس بیورو اور پیمرا نےفیض آباددھرنا کیس نظر ثانی درخواستیں واپس لینےکا فیصلہ کیا۔
آئی بی اور پیمرا نے سپریم کورٹ میں نظرثانی واپس لینےکیلئےمتفرق درخواستیں دائر کیں ہیں۔
آئی بی، پیمرا، الیکشن کمیشن،پی ٹی آئی،ایم کیوایم،اے ایم ایل نے بھی نظرثانی درخواستیں دائرکی تھیں۔
یہ پڑھیں : اسلام آباد اور راولپنڈی کے داخلی راستہ فیض آباد کو کنٹینر لگا کر بند کردیا گیا