اسلام آباد: سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ دنیا بھر کی سپریم کورٹ میں پہلی بار سپریم کورٹ پاکستان نے ای کورٹ سسٹم متعارف کروایا۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس دنیا کا مستقبل ہے۔ ایک طبقہ جوڈیشل ایکٹیویزم میں عدم دلچسپی پر ناخوش ہے۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ آصف سعید کھوسہ نے نئے عدالتی سال کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ عدالتی سال کے آغاز پر ملک بھر کی عدالتوں میں زیر التواء مقدمات کی تعداد 1.81 ملین تھی۔ لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے مطابق زیر التواء مقدمات کی تعداد کم ہوکر 1.78 ملین ہوگئی ہے۔
چیف جسٹس نے بتایا کہ گزشتہ سال سپریم کورٹ میں 19 ہزار 751 مقدمات کا اندراج ہوا۔ گزشتہ سال عدالت عظمیٰ نے 57 ہزار 684 مقدمات نمٹائے۔ دنیا بھر کی سپریم کورٹ میں پہلی بار سپریم کورٹ پاکستان نے ای کورٹ سسٹم متعارف کروایا۔ ای کورٹ سسٹم کے ذریعے سپریم کورٹ پرنسپل سیٹ اور تمام رجسٹریاں ویڈیو لنک کے ذریعے منسلک ہوئیں۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بتایا کہ امریکہ میں سول ججز کی تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس دنیا کا مستقبل ہے۔ از خود نوٹس کے استعمال سے متعلق آئندہ فل کورٹ میٹنگ تک مسودہ تیار کر لیا جائے گا۔ اس مسئلے کو بھی ایک دفعہ ہمیشہ کے لیے حل کر لیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں : جج کا طرز عمل ادارے کے لیے بدنما داغ کی طرح ہے، سپریم کورٹ کا جج ویڈیو اسکینڈل پر فیصلہ
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بخوبی آگاہ ہوں سوسائٹی کا ایک طبقہ جوڈیشل ایکٹیویزم میں عدم دلچسپی پر ناخوش ہے۔ سوسائٹی کا وہ طبقہ چند ماہ پہلے جوڈیشل ایکٹیویزم پر تنقید کرتا تھا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سو موٹو پر عدالتی گریز زیادہ محفوظ ہے اور کم نقصان دہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ معاشرے کا وہ طبقہ چند لوگوں کے مطالبے پر سو موٹو لینے کو سراہتا ہے۔ ہم آئین اور قانون کے مطابق اپنا کردار ادا کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔ عدالتی عمل میں دلچسپی رکھنے والے درخواست دائر کریں، جسے سن کر فیصلہ ہوگا۔ اپنی تقریر میں کہہ چکا ہوں کہ سوموٹو کا اختیار قومی اہمیت کے معاملے پر استعمال کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جو کسی کے مطالبے پر لیا گیا ہو، وہ سوموٹو نوٹس نہیں ہوتا ہے۔ جب ضروری ہوا یہ عدالت سو موٹو نوٹس لے گی۔ جوڈیشل ایکٹیویزم کی بجائے سپریم کورٹ عملی فعل جوڈیشلیزم کو فروغ دے رہی ہے۔ اپنے گھر کو درست کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔