جی ٹی وی نیٹ ورک
کالمز و بلاگز

سیاست اور انتہا پسندی میں فرق رکھئیے

سیاست

عمران خان گرفتار ہوئے تو ان کے سپورٹرز شدید غصے میں آگئے اور پاکستان بھر میں جلاؤ گھیراؤ کرکے کڑوڑوں روپے کا نقصان کردیاگیا۔ نقصان ایک طرف اس احتجاج نے ریاست ہلا کر رکھ دیا۔ یہ احتجاج اچانک نہیں تھا بلکہ مہینوں کی برین واشنگ کا نتیجہ تھاجس کے بہت خطرناک نتائج بر آمد ہوئے ۔اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک دشمن لوگوں نے اس احتجاج پر خوشی کے خوب شادیانے بجائے۔

 

سیاسی کارکن ہونے میں کوئی قباحت نہیں لیکن انتہا پسند ہونے میں شدید کراہت ہے۔احتجاج کرنے میں کوئی قباحت نہیں لیکن پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچانے میں شدید کراہت ہے۔ سیاسی احتجاج ہوتا ہے مہذ ب طریقے سے، لیکن جلاؤ گھیراؤ ، گھروں میں گھسنا ، ریاستی اداروں میں گھسنا ، سپر اسٹور ز کو لوٹنا اور پھر جلانا ، پبلک بسز جلانا ، میٹر و اسٹیشن جلانا، وطن کے لئے شہید ہونے والوں کی یادگاریں جلانا کسی طور قابل قبول نہیں ، چاہے لیڈر کی گرفتاری ہو یا پھر سزا۔

 

یہ پڑھیں : بیرون ملک نہیں جاسکتے تو پھرکامیاب راستہ کیا ہے ؟

 

سیاسی کارکنان اپنے سیاسی لیڈر سے محبت ضرور کریں ، اپنا وقت دینا چاہے ضرور دیں لیکن اگر سیاسی لیڈر آپ کو انتہا پسند بنارہا ہے تو وہ لیڈر ہرگز نہیں ۔وہ آپ کو اپنی شیلڈ بنارہا ہوتا ہے تاکہ مستقبل میں آپ کا خون کسی سیاسی معاملے کو فائدے مند بنانے کے لئے استعمال کیا جائے۔ سیاسی لیڈران کی اکثریت صرف اپنے مفادات کو دیکھتی ہے اور اصل لیڈر ہمیشہ فرنٹ سے لیڈ کرتا ہےاور کارکنوں کو پیچھے رکھتا ہے۔ کارکنان کےساتھ کھڑا ہوتا ہے اور ان کو دہشت گردی پر نہیں اُکساتا۔

 

پاکستان کی تاریخ کے سیاہ دنوں میں سے ایک سیاہ دن 9 مئی کا تھا۔ اس دن احتجاج کے نام پر جو دہشت گردی ہوئی اس کا صرف اور صرف نقصان ریاست پاکستان کو ہوا ۔ اس دن دہشت گردی کرنے والے ہزاروں لوگوں پر دہشت گردی کے مقدمات بن گئے ، کئی ہزارلوگ گرفتار ہے اور اس میں درجنوں خواتین بھی شامل ہیں ۔

 

سیاست

 

 

جب دہشت گردی کرنےو الے لوگوں کی تفصیلات دیکھی تو حیرت کےساتھ افسوس بھی ہوا۔ کیونکہ ان میں کچھ لوگ کافی پڑھے لکھے تھے ،کچھ طالب علم تھے ، کچھ کاروباری حضرات تھے ، کچھ گورنمنٹ کے ملازم تھے لیکن اب ان سب کی شناخت دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے طور پر ہوگئی ہے جو کے پوری زندگی ان کے ساتھ جڑی رہے گی۔

 

بہت سے لوگوں نے اپنے لیڈر کی محبت میں جو یہ قدم اٹھایا ہے ان لوگوں کوشاید اندازہ نہیں کہ ان قدموں نے انھیں مشکل ترین زندگیوں میں ڈٖال دیا ہے۔ اٹھنے والےان قدموں نے ان کی زندگی کو کچل دیا ہے اور اب ان کی زندگیاں مستقل طور پر تبدیل ہوجانی ہے۔ نہ صرف ان کی زندگیاں بلکہ ان کی فیملیز نہ جانے کتنے سال تک روتی رہے گی ۔ ان کے کاروبار ، ان کا لائف اسٹائل سب تباہ ہوجائے گا۔

 

9 مئی کوکراچی میں رینجرز کی چوکی جلانے والے ایک ادھیڑ عمر شخص کی ویڈیو دیکھی جو اس نے چوکی جلانے کے بعد اپنے بیٹے سے بنوائی ، اور اب وہ دونوں باپ بیٹے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں ۔ دونوں نے فرط جذبات میں یہ کام کردیا اور وہ اب گرفتار ہیں لیکن ان کی پارٹی نے ان کو اپنانے سے انکار کردیا ہے اور یہ بھی کہہ دیا کہ ان کا ہم سے قطعی کوئی تعلق نہیں ۔ اب کیا ہوگا ، مسلسل خواری ۔ جیل ، عدالت ، تھانہ ، کچہری ،وکیل، خرچہ اور سزا۔ یہ 2 لوگوں کی کہانی نہیں ہزاروں لوگوں کی کہانی ہے جن کے اگلے کئی سال اذیت بھرے ہونگے۔

 

یہ پڑھیں : عمران خان اور دم توڑتی مقبولیت

 

خونی احتجاج ہوگیا ، لیڈر اے سی والے کمرے میں سکون سے براجمان ہے۔ ان کانوں نے یہ بھی سنا کہ لیڈر کہتا ہے کہ ہمارا ان لوگوں سے کوئی تعلق نہیں اوراحتجاج کرنے والے ہمارے کارکن نہیں ۔ لیڈر کی یہ مجبور ی ہے کیونکہ وہ قبول نہیں کرسکتا کھلے عام کیونکہ آپ عوام کے ذریعے لیڈر کچھ خاص جگہ پیغام پہچاتا ہے۔

 

 

بہرحال ان واقعات نے ملکی سیاست کو زخمی کیا ہے جس کے اثرات طویل عرصے ریاست کے روح پر رہیں گے۔سیاسی کارکنان کو یہ بات اب سمجھ لینی چاہپیے کہ ریاست کے خلاف جو بھی کھڑا ہو آپ اس کے خلاف کھڑے ہوں ۔ریاست کو ہر حال میں مقدم رکھنا ہوتا ہے کیونکہ ریاست ہوگی تو سیاست ہوگی اور سیاست ہوگی تو رہنما ہوگا۔

نوٹ : جی ٹی وی نیٹ ورک اور اس کی پالیسی کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

 

متعلقہ خبریں