جی ٹی وی نیٹ ورک
اہم خبر

عمران خان کی سات مقدمات میں عبوری ضمانت منظور، سیکورٹی واپس لینے پر جواب طلب

سات مقدمات میں

اسلام آباد : عدالت نے عمران خان کی سات مقدمات میں عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ میں پیش ہونے کی ہدایت کردی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی سات مقدمات میں عبوری ضمانت کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ عمران خان کو سیکیورٹی خدشات ہیں، جو واقعی ہوں گے۔ عدالت نے تو آرڈر پاس کرنا ہے، امن و امان تو انتظامیہ نے دیکھنا ہے۔ درخواست گزار کہتا ہے امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے براہ راست ہائیکورٹ آیا۔ جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ عدالت نے متعدد بار چیف کمشنر کو سیکیورٹی فراہم کرنے کا کہا ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کو ایف ایٹ کچہری سے جوڈیشل کمپلیکس شفٹ کیا گیا۔ عمران خان کی ذمہ داری ہے کہ وہ پر امن ماحول کو یقینی بنائیں۔ یہ وہاں گاڑی سے نہیں اترے اور ان کے لوگوں نے وہاں گاڑیاں جلا دیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ انتظامیہ جب سیکیورٹی نہیں دے رہی تو پھر وہ کیا کریں؟ تو وہ اپنی سیکیورٹی خود کریں گے۔ جب انتظامیہ غیرذمہ دارانہ بیانات دے تو درخواست گزار کیا کرے؟ کیا انتظامیہ شہری سے متعلق ایسا بیان دے سکتی ہے؟

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ پاکستان کے دو وزرائے اعظم کو قتل اور تیسرے پر قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے۔ اس صورتحال میں عمران خان کے پاس ہائیکورٹ کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہیں ہے۔  عمران خان کی ضمانت کی درخواستیں 18 مارچ کو انسداد دہشت گردی عدالت چلی گئیں تھیں۔

وکیل کا کہنا تھا کہ ہمیں جوڈیشل کمپلیکس داخلے کی اجازت نہیں ملی۔ اس وقت ملک میں ایسی صورتحال ہے۔ جو پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس وقت یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ ہمیں جوڈیشل کمپلیکس جانے میں کوئی مسئلہ نہیں۔ اگر سیکیورٹی دی جائے تو پیش ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں : تحریک انصاف کا عمران خان کیخلاف 84 مقدمات درج ہونے کا دعویٰ غلط ثابت

عمران خان کے وکیل نے مزید کہا کہ درخواست گزار سے سیکورٹی واپس لی گئی ہیں، جس پر عدالت نے کہا کہ سابق وزیراعظم کو ایک خصوصی سیکورٹی پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ ہمیں کوئی خصوصی سیکورٹی نہیں دی جارہی۔ پنجاب حکومت نے سارے ٹی او آرز اڑا کر زمان پارک پر ریڈ مارا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ سابق وزیراعظم جب کہیں جاتے ہیں تو کیا خصوصی سیکورٹی دی جاتی ہے؟ کیا سیکورٹی وفاقی حکومت یا صوبائی حکومت نے واپس لے لی؟

فواد چوہدری نے کہا کہ وزیر داخلہ کے گزشتہ روز کا بیان آپ کے سامنے ہیں۔ انہوں نے دس دس سال کے بچوں کو گرفتار کرلیا ہے۔ ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ فواد صاحب اب سیاسی باتیں کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار سابق وزیر اعظم پاکستان رہے ہیں، خصوصی سیکورٹی ان کا حق ہے۔ بحثیت وزیر اعظم ان کو کیا سیکورٹی دی جاتی ہے وہ بتائیں۔

فواد چوہدری اور ایڈوکیٹ جنرل کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ میں نے  بھی سیکورٹی کے حوالے سے بات کی ہے، جس پر فواد چوہدری نے کہا کہ آپ نے کوئی بات نہیں کی، آپ جھوٹ بول رہے ہیں، جس پر ایڈوکیٹ نے کہا کہ آپ سے زیادہ جھوٹ کوئی نہیں بولتا۔ چیف جسٹس نے کراس ٹاک کرنے سے روک دیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عمران خان کی سیکیورٹی واپس لے کر بہت غلط کام کیا گیا ہے۔ ہم آرڈر پاس کریں گے مگر آپ کو پھر بھی ٹرائل جانا ہوگا۔ سیکورٹی کے حوالے سے وفاقی حکومت کو نوٹسز جاری کرتے ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کو سات مقدمات میں 6 اپریل تک گرفتار کرنے سے روکتے ہوئے سیکورٹی واپس لینے پر جواب طلب کرلیا۔

متعلقہ خبریں