مقبول خبریں
تازہ ترین خبریں
اسلام آباد میں بیٹھے بابو خود کام کرتے ہیں نہ کسی کو کرنے دیتے ہیں: بلاول
1-دسمبر،2023
غزہ کی پٹی کو دنیا کی سب سے بڑی جیل کیوں کہا جاتا ہے ؟

غزہ پر اسرائیلی فضائیہ کی بمباری مسلسل جاری ہے۔ بمباری کے ذریعے ایک کے بعد دوسری عمارت اور ایک کے بعد دوسرے ہمسائے کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہ صورت حال فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس کی طرف سے اسرائیل پر غیر معمولی حملوں کے بعد شروع ہوئی ہے جنکی ماضی میں کوئی نظیر موجود نہیں تھی۔
اب تک کی اس دو طرفہ جنگ میں فریقین کے7000سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں، خدشہ ہے کہ جنگ میں وسعت آجائے گی،کیونکہ اسرائیل کی طرف سے اہل غزہ کو انتقام کا نشانہ بنانے میں شدت آرہی ہے۔
جس غزہ کو اسرائیل کی طرف سے بارہا بمباری کا نشانہ بناتے کئی دہائیوں سے اسرائیلی فوج تباہ کرتی آئی ہے ۔
اس کی شکل کیا ہے ، اس کا جغرافیہ کیا ہے ؟اس کی اہمیت کیا ہے اور یہاں کے رہنے والے کون لوگ ہیں اور اسے دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل کیوں کہا جاتا ہے ۔
ان سوالوں کے جواب اس تحریر کے ذریعےجانئے ۔
غزہ کی پٹی کیا ہے ؟
یہ چالیس کلو میٹر پر پھیلا خشکی کا ایسا ٹکڑا ہے جو اسرائیل اور مصر کے درمیان ایک سینڈوچ کی طرح موجود ہے۔
غزہ کے ساتھ ہی مغربی کنارے کا فلسطینی علاقہ بھی ہے، یہ دونوں جگہیں غزہ اور مغربی کنارا فلسطینی علاقے ہیں، دونوں کئی دہائیوں سے جنگی مرکز بنے ہوئے ہیں۔
اسرائیل نے غزہ شہر کو پہلے سے ہی بلاک کر رکھا ہے، یہ بلاکیڈ کئی برسوں پر محیط ہے، اس وجہ سے غزہ کے ارد گرد رکاوٹیں، دیواروں کی صورت میں باڑ اور دوسری رکاوٹیں کھڑی ہیں۔
حماس کے پاس اس غزہ کی پٹی کا کنٹرول 2007ء سے ہے، تب سے ہی اسرائیل نے اس کو محاصرے میں لے کر اسے دنیا کی ایسی کھلی اور بڑی جیل بنا دیا ہے جس پر ایک طرف آنے جانے کی اجازت نہیں تو دوسری جانب اسرائیل کی بمباری کی زد میں رہتی ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ غزہ سے باہر کے سب راستے حتی کہ جڑی ہوئی ساحلی پٹی بھی اسرائیلی جبری قبضے میں ہے۔
غزہ پٹی کیسے بنی ؟
غزہ کی یہ پٹی 1917 تک عثمانی خلافت کا حصہ رہی اور پھر 1917 میں اس کا کنٹرول برطانیہ کے پاس چلا گیا۔
جب اسرائیل کا 1948 میں قیام عمل میں لایا گیا تو ہزاروں فلسطینی مہاجرین کو غزہ میں دھکیل دیا گیا۔ اب ان کے وارثین اس زیر محاصرہ غزہ میں رہتے ہیںاور پھر اسی سال غزہ کی پٹی مصر کا حصہ بن گئی۔
بیس سال بعد 1967 میں اسرائیل نے مصر، اردن اور شام کے خلاف جنگ کی تو اسرائیل کا غزہ پر قبضہ ہو گیا۔اسی دوران یروشلم اور مغربی کنارا بھی اسرائیل کے زیر قبضہ چلا گیا۔
فلسطینیوں کا ان تینوں علاقوں کے بارے میں موقف ہے کہ یہ ان کی مستقبل کی فلسطینی ریاست کا حصہ ہیں،اسرائیل نے تیس برسوں سے زیادہ قبضہ رکھا اور یہودی بستیوں کی تعمیر بھی کی۔
1987 اور 1993کے دوران غزہ میں فلسطینیوں کا انتفادہ سامنے آیا اور یہ مزاحمت غزہ اور مغربی کنارے میں پھیل گئی۔
1990 کی دہائی میں اوسلو امن عمل شروع ہو گیا۔جس کے نتیجے میں فلسطینی ریاست کا مطالبہ فلسطینی اتھارٹی کی صورت سامنے آیا۔ اسی معاہدے کے بعد غزہ اور مغربی کنارے کو آزادی تو نہ ملی البتہ جزوی سی سہولت مل گئی۔
تاہم 2005 میں اسرائیل کو انتفادہ کی وجہ سے غزہ پر اپنا کنٹرول چھوڑنا پڑا۔ اسی سبب اسرائیل نے غزہ سے 9000 یہودی آباد کاروں کو ہٹا کر اسرائیلی فوج کو بھی نکال لیا۔
اگلے سال فلسطینی اتھارٹی کے انتخابات ہوئے اور حماس نے محمد عباس کے فتح گروپ سے الیکشن جیت لیا۔ شہر کا کنٹرول حماس کے منتخب لوگوں کی حکومت کے ہاتھ آگیا۔
لیکن اس کے بعد فلسطینی اتھارٹی جس کی کمان محمود عباس کے پاس ہے اس میں الیکشن دوبارہ نہیں کرائے گئے کہ حماس دوبارہ نہ جیت جائے۔
دوسری جانب اسرائیل نے حماس کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد غزہ کا محاصرہ کر لیا ، اسرائیل کا دعوی تھا کہ اس طرح جنگجووں کو اسلحے کی سپلائی کو روکا جا سکے گا۔
اقوام متحدہ اور دوسرے انسانی حقوق گروپوں کی طرف سے اسرائیل کے اس محاصرے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ، اس محاصرے کی وجہ سے عملا اسرائیلی قبضہ چل رہا ہے۔
غزہ میں کون لوگ رہتے ہیں؟
غزہ دنیا کے گنجان ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ اس کی آبادی 23 لاکھ ہے، ان 23لاکھ میں سے نصف ابادی بچوں پر مشتمل ہے۔
یونیسف کے مطابق قریبا دس لاکھ بچے غزہ میں رہتے ہیں،ان کی عمر پندرہ سال سے کم ہے اور یہ کل آبادی کا چالیس فیصد ہیں۔
عالمی بنک کے اعدادو شمار کے مطابق غزہ دنیا کے ان علاقوں میں بھی شامل ہے جہاں دنیا کی بد ترین بے روزگاری ہے، جبکہ غزہ میں رہنے والے 80 فیصد لوگ سخت غربت کی زندگی گذار رہے ہیں۔
پینے کا صاف پانی، بجلی، اور مناسب خوراک سے ہی محروم نہیں بلکہ طبی سہولیات کے حوالے سے بھی انتہائی خراب صورتحال سے دوچار ہیں۔
اس کو کھلی جیل کیوں کہا جاتا ہے ؟
دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل کا نام انسانی حقوق کی تنظیم ، دی ہیومن رائٹس واچ نے غزہ کو دیا ہے۔ اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق اسرائیلی فوج فلسطینیوں کو عام طور پر غزہ کے دونوں طرف آنے جانے سے روکتی ہے۔
یہ پڑھیں : اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کاغزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ